قرآن کریم رب العالمین کی جانب سے نازل شدہ آخری کتاب ہے،جوآخری پیغمبرسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس آخری امت کودی گئی ہے،قرآن کریم سے تعلق وربط اورقرآنی تعلیمات پرعمل عروج کاسبب اوراس سے اعراض ودُوری تنزل وانحطاط کاذریعہ ہے۔شیخ العالَم المعروف بہ شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ مالٹاکی جیل سے خلاصی پاکرہندوستان دیوبندپہنچے توایک رات علمائے کرام کے مجمع میں ارشادفرمایا:مالٹاکی زندگی میں، اسیری کے زمانہ میں غوروفکراورتدبرکے بعدمیں نے دوسبق سیکھے ہیں،میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پرغور کیاکہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اوردنیوی ہرحیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں،مسلمانوں کاانحطاط وزوال کیوں ہے؟ توا س کے دو سبب معلوم ہوئے:ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑدینا، دوسرے آپس کے اختلافات اورخانہ جنگی۔چنانچہ قرآنِ کریم سے مسلمانوں کووابستہ رکھنے اوراس کی تعلیمات سمجھانے کے لئے قرنِ اول سے ہی کلامِ الہٰی کی تفاسیرکاسلسلہ شرو ع ہوا،عربی زبان میں قرآن کریم کی بے شمار تفاسیرلکھی گئیں،جن میں سے بعض مختصر اوربعض دسیوں جلدوں پرمشتمل ہیں۔
عربی زبان کے بعد فارسی تمام زبانوں پر مقدم ہے، فارسی وہ پہلی زبان ہے جس میں قرآن وحدیث کے اولین ترجمے ہوئے،ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے قیام کے بعد”فارسی زبان“دفتری،علمی،تصنیفی اورخط و کتابت کی زبان تھی،بالفاظِ دیگرفارسی ”سرکاری زبان“کی حیثیت سے رائج تھی،اورہرمسلمان فارسی سمجھتا ضرورتھااگرچہ بول،لکھ نہ سکتاتھا۔ مسندالہندشاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ بارہویں صدی کے مجددتھے،آپ کے اورآپ کے خاندان کے علمی کارنامے ساری دنیا میں مشہورہیں،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے خیرخواہی کے جذبہ کے تحت، خلقِ خداکی اصلاح اورانہیں قرآنی تعلیمات واحکامات سے روشناس کرانے کے لئے قرآن کریم کافارسی میں ترجمہ کرنے کاقصد و ارادہ فرمایا،شاہ صاحبؒ جب حجازِ مقدس کے سفرسے واپس ہندوستان پہنچے تواس ارادے کوعملی شکل دی،اور ”فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن“کے نام سے قرآن کریم کا فارسی ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
عام طور پر مشہور ہے کہ شاہ صاحبؒ سب سے پہلے فارسی میں قرآن کریم کے مترجِم ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کے اس فارسی ترجمے سے پہلے بھی ہندوستان میں کے بعض فارسی تراجم کانام لیاجاتاہے،لیکن یا تووہ تراجم ناپیدتھے یاعوام الناس کی رغبت کے لئے ان کی نسبتیں بدل دی گئیں تھیں، جیساکہ علامہ میرسیدشریف جرجانیؒ کے فارسی ترجمہ کوشیخ سعدیؒ کاترجمہ قرار دیا جاتاتھا۔جس طرح فارسی زبان میں قرآن کریم کی خدمت شروع ہوئی، اسی طرح فارسی زبان میں حدیث شریف کے بھی تراجم کی بنیادپڑی،چنانچہ سب سے پہلے احادیث کے فارسی تراجم میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے مشکوۃ شریف کاترجمہ”اشعۃ اللمعات“کے نام سے چارضخیم جلدوں میں تحریر فرمایاتھا،ہندوستان اورافغانستان میں اس کے ذریعہ حدیث کی بڑی خدمت ہوئی، اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے ”مؤطاامام مالک“ کاپہلافارسی ترجمہ کیا،دہلی کی علم حدیث میں یہ ممتازخدمت ہے۔فارسی زبان کے بعد جب اُردونے فارسی کی جگہ لینی شرو ع کی تواس انقلابی صورتحال کوبھانپ کر شاہ صاحبؒ کے صاحبزادے شاہ عبدالقادردہلویؒ نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے شاہ صاحبؒ کے فارسی ترجمہئ قرآن کے تقریباً پچاس سال بعد قرآن کریم کا رائج الوقت اُردوزبان میں بامحاورہ ترجمہ کیا،یہ ترجمہ انتہائی مقبول ہوااوربعدکے تمام تراجم کے لئے یہ ترجمہ سندکی حیثیت رکھتاہے، شاہ عبدالقادر ؒ کایہ اُردو ترجمہ برصغیرکے مسلمانوں میں ”الہامی ترجمہ“کے نام سے مشہورہے۔شاہ عبدالقادردہلویؒ کے اِس پہلے اُردوترجمے کے بعد ان کے برادرِعزیزشاہ رفیع الدین ؒ نے قرآن کریم کاتحت اللفظ اُردوترجمہ کیا،یہ دونوں تراجم عوام میں تلاوتِ قرآن کریم کے ساتھ پڑھے جانے لگے، مذکورہ بالاتینوں تراجم نے مسلمانوں میں دعوت واصلاح کاجوکارنامہ سرانجام دیاہے بلامبالغہ کوئی بھی اسلامی حکومت اپنے تمام تروسائل بروئے کارلاکربھی وہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتی۔ان تراجم کے علاوہ حضرت شیخ الہندؒ کاترجمۂ قرآن بھی مشہورومعروف ہے، حضرت شیخ الہندؒکے ترجمہ کا بنیادی مآخذبھی شاہ عبدالقادردہلوی اور شاہ رفیع الدین دہلویؒ کے تراجم ہی ہیں،اِسے بقیہ تراجم سے ممتازرکھنے کے لئے حضرت شیخ الہندؒ نے اس کانام ”موضح الفرقان“ تجویزفرمایا تھا۔حضرت شیخ الہندؒ نے ترجمہ کے ساتھ مفیدتفسیری وضاحتیں بھی قلمبندفرمائی تھیں لیکن آپ کی حیاتِ مبارکہ میں یہ کام صرف سورۂ آل عمران تک ہوسکا،بقیہ حصے کی تکمیل شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانیؒ نے فرمائی اوراب یہ تفسیرعثمانی کے نام سے مشہورہے۔
آمدم برسرمطلب،سعودی حکومت نے قرآن کریم اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمہ کی اشاعت کے لئے ”مجمع الملک فہدلطباعۃ المصحف الشریف“ complex) printing quran glorious fahd king) کے نام سے مدینہ منورہ میں ایک ادارہ قائم کررکھاہے،یہ ادارہ قرآن کریم کی اشاعت کاعظیم الشان بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے،یہاں سے قرآن کریم اورمختلف زبانوں میں تراجم چھپ کر دنیاکے کونے کونے میں پہنچ رہے ہیں،اہل علم کی ایک کمیٹی تمام امورکی مستقل جانچ پڑتال کرتی ہے،اوران کی منظوری کے بعد تراجم وغیرہ کوحتمی شکل دی جاتی ہے۔اس ادارے سے اب تک قرآن کریم کے کروڑوں نسخے اورتراجم تیارہوکرمسلمانوں کوہدیہ کئے جاچکے ہیں،سعودی حکومت کے اس کارنامہ کوعالمِ اسلام انتہائی محبوبیت اورقدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔
برصغیرکے اُردوں داں طبقہ کے لئے اِس ادارے نے سب سے پہلے جس جامع اور مختصرترجمہ وتفسیرکے چھاپنے کااہتمام کیاوہ تفسیرعثمانی ہے۔کچھ عرصہ قبل اِس ادارہ نے فارسی ریاستوں اورفارسی زبان بولنے والوں کے لئے قرآن کریم کا آسان اور جدیدفارسی(درّی) ترجمہ چھاپنے اوراُسے فارسی داں حجاجِ کرام کوبطورِ ہدیہ پیش کرنے کے لئے مختلف ممالک کے علمائے کرام اورسفارت خانوں سے رابطہ کرکے اس سلسلہ میں رائے طلب کی،اِس سروے سے مجمع ملک فہدپرنٹنگ پریس کی انتظامیہ اورکمیٹی کے سامنے حضرت مولانا محمدانوربدخشانی صاحب مدظلہ کے فارسی ترجمہ قرآن کو چھاپنے کی رائے سامنے آئی،نیزفارسی بولنے اورپاک وہندکے بیشترعلمائے کرام نے بھی اِس ترجمہ کو آسان فہم اورقابل اعتماد قراردیا۔
استاذِمحترم مولانامحمدانوربدخشانی صاحب مشہور و معروف عالمِ دین ہیں،علوم عقلیہ ونقلیہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی مہارت عطافرمائی ہے،آپ برصغیرکے مایہئ ناز عالم محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوریؒ (بانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن)کے خصوصی شاگرداورعالم اسلام کی مشہوردینی درس گاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذِحدیث ہیں،نصف صدی ہونے کوہے کہ آپ مختلف علوم وفنون خصوصاًحدیث نبوی کی تدریس میں ہمہ وقت مشغول ہیں، عربی زبان میں مختلف علوم پرمشتمل آپ کی دودرجن سے زائد کتب نہ صرف اہل علم کے طبقہ میں مقبول اورانتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں بلکہ مختلف مدارس دینیہ میں داخلِ نصاب ہیں۔آپ نے قرآن کریم کایہ فارسی ترجمہ تقریباً چھ سالوں میں مکمل فرمایا،عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ترجمہ کئی منفردخصوصیات کا حامل ہے، پاکستان میں چندسالوں سے یہ ترجمہ شائع ہوتارہاہے اور الحمدللہ اندرون وبیروں ملک بہت جلد اللہ تعالیٰ نے اس ترجمہ کو شہرت ومقبولیت نصیب فرمائی،اس سال الحمدللہ یہ ترجمہ قرآن کریم مجمع ملک فہدپرنٹنگ پریس سے شائع کیاجاچکاہے اورگزشتہ حج کے موقع پریہ ترجمہ فارسی زبان بولنے والے حجاجِ کرام کوبطورِ ہدیہ پیش کیاگیا۔عالمی سطح پر اس ترجمہ کی اشاعت اور مقبولیت اورحرمین شریفین میں اس کی دستیابی بلاشبہ جہاں حضرت مولانامحمد انور بدخشانی مدظلہ کے لئے سعادت کی بات ہے وہیں برصغیرکے اہل علم کے لئے عموماًاور اہلِ پاکستان و جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کے لئے خصوصاًایک بہت بڑے اعزاز سے بھی کم نہیں۔ہم مولانامحمدانوربدخشانی مدظلہ کوقرآن کریم کی عظیم خدمت اور اس اعزازپرہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں،عالمگیرسطح پرقرآن کریم اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کی اشاعت پرمجمع ملک فہدمدینہ منورہ اورخادم الحرمین الشریفین کے شکرگزارہیں۔ اوردعاگوہیں کہ اللہ تعالیٰ مترجِم کے لئے اس عظیم قرآنی خدمت کوذخیرہئ آخرت بنائے اورمسلمانوں کواس کے ذریعہ قرآن کریم سے تعلق جوڑنے اورتعلیماتِ قرآنیہ پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین