غیر مسلم کو تالیف قلب کے لیے زکوۃ دینا

-->

سوال

ہمارے علاقے میں ایک صاحب کہتے ہیں کہ زکوۃ کی رقم جس طرح مسلمان غریب کو دے سکتے ہیں اسی طرح گھروں میں کام کاج کرنے والی غیر مسلم عورتیں یامعاشرے میں بسنے والے غریب غیر مسلم جیسے کرسچن وغیرہ انہیں بھی زکوۃ دینا جائز ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے ، اس بارے میں رہنمائی کردیں کہ کیا ان غیرمسلموں کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

زکوۃ  صرف مسلمان مستحقین کاحق ہے ، کسی بھی غیر مسلم کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ ابتدائے اسلام میں بعض غیرمسلموں کو ان کی تالیف قلب یعنی اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے زکوۃ دی جاتی تھی، اسلام کی شان و شوکت اور استحکام کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے یہ مد ختم ہوگئی۔البتہ نفلی صدقات سے معاشرے کے غیر مسلم محتاجوں کی مدد کرسکتے ہیں۔

تفسیر عثمانی میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :” مؤلفۃ القلوب” (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیر ذلک من الانواع، اکثر علماء کے نزدیک حضور ﷺکی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی)”۔مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :” چوتھا مصرف مصارف زکوٰة میں سے مولّفة القلوب ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لئے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے، عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں تین چار قسم کے لوگ شامل تھے، کچھ مسلمان کچھ غیر مسلم، پھر مسلمانوں میں بعض تو وہ لوگ تھے جو غریب حاجت مند بھی تھے، اور نو مسلم بھی، ان کی دل جوئی اس لئے کی جاتی تھی کہ اسلام پر پختہ ہوجائیں، اور بعض وہ تھے جو مال دار بھی تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، مگر ابھی تک ایمان کا رنگ ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا، اور بعض وہ لوگ تھے جو خود تو پکے مسلمان تھے مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ شر سے بچنے کے لئے ان کی دل جوئی کی جاتی تھی، اور بعض وہ تھے جن کے بارے میں یہ تجربہ تھا کہ نہ تبلیغ و تعلیم سے اثر پذیر ہوتے ہیں، نہ جنگ و تشدد سے بلکہ احسان و حسن سلوک سے متاثر ہوتے ہیں، رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ چاہتے تھے کہ خلق خدا کو کفر کی ظلمت سے نکال کر نور ایمان میں لے آئیں، اس کے لئے ہر وہ جائز تدبیر کرتے تھے جس سے یہ لوگ متاثر ہوسکیں، یہ سب قسمیں عام طور پر مولفة القلوب میں داخل سمجہی جاتی ہیں، جن کو صدقات کا چوتھا مصرف اس آیت میں قرار دیا ہے …عام خیال کے مطابق ان میں مسلم وغیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے، غیر مسلموں کی دل جوئی اسلام کی ترغیب کے لئے اور نو مسلموں کی دل جوئی اسلام پر پختہ کرنے کے لئے کی جاتی تھی، عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خاص علت اور مصلحت کے لئے جس کا ذکر ابھی آچکا ہے صدقات دیئے جاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جبکہ اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہوگئی اور کفار کے شر سے بچنے یا نو مسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لئے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت ختم ہوگئی، اس لئے ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا جس کو بعض فقہاء نے منسوخ ہوجانے سے تعبیر فرمایا، فاروق اعظم حسن بصری، ابو حنیفہ، مالک بن انس رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف یہی قول منسوب ہے”۔فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں