اگرہم تاریخ کے وسیع دائرے پرنظرڈالیں،اوراق ماضی پلٹ کردیکھیں تواس دنیامیں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں،شیریں مقال واعظ اورآتش بیاں خطیب سامنے آتے ہیں،بہت سے فلسفی ہردورمیں ملتے ہیں،وہ بادشاہ اورحکمران جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اوروہ جنگجوجنہوں نے ان گنت ممالک فتح کئے ان کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں۔
انقلابی طاقتیں ہماری نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقش حیات کوباربارزیروزبرکیااورکتنے ہی مقنن تھے جوایوان تہذیب میں کارنامے دکھاچکے۔
لیکن جب ہم ان سب کی فتوحات،تعلیمات،کارناموں اوران کے پیداکردہ مجموعی نتائج کودیکھتے ہیں تواگرکہیں خیروفلاح اورلوگوں کی بھلائی دکھائی دیتی ہے تووہ جزوی قسم کی ہے،پھرخیروفلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسدپائے جاتے ہیں لہذاان کااس کائنات اوراس کے باسیوں پرکوئی احسان نہیں ہے۔
انبیاء کے سوااس کائنات میں کوئی عنصرایسادکھائی نہیں دیتاجوپورے کے پورے انسان اوراجتماعی انسانیت کواندرسے بدل سکاہو۔سرکاردوعالم،فخرامت،محسن کائنات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااصل کارنامہ اوراحسان یہ ہے کہ آپ نے اپنی دعوت،اخلاق،محنت سے پورے کے پورے اجتماعی انسان کواندرسے بدل دیا۔
اورآپ کاظہوربھی ایسے حالات میں ہواجب پوری انسانیت عرب وعجم تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی،چھٹی صدی عیسوی بلاشبہ جہالت کے غلبے کی صدی تھی۔
جب دنیامیں دوروحشت چل رہاتھا،شرک وبت پرستی نے مذہب کاستیاناس کردیاتھا،مذہب یہودیت میں چندبے جارسموں کے سواکچھ باقی نہ تھا،عیسائیت شرک میں رچ بس چکی تھی،مصر،ہند،بابل،یونان میں تہذیبیں اپنی شمع گل کرچکی تھیں،رومی اورایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دھمک تھی مگران کے شیش محل بدترین عقوبت خانوں کامنظرپیش کررہے تھے۔
عرب کے ماحول کے تصورسے ہی انسانی دل دہل جاتاہے وہاں اگرماضی میں کسی تہذیب کی روشنی نموداربھی ہوئی تھی تواسے گل ہوئے مدتیں گزرچکی تھیں،انبیاء کی تعلیمات تحریف وتاویل کے غبارمیں گم ہوچکی تھیں،دوروحشت کی رات چھائی ہوئی تھی،انسانوں کے درمیان تصادم تھا،جنگ وجدل اورلوٹ مارکادوردورہ تھا،جاہلی ثقافت اوراخلاقی پستی زوروں پرتھی،کعبہ کے مجاوروں نے اللہ کے اس مقدس گھرکوتین سوساٹھ بتوں سے آبادکیاہواتھا۔
الحاصل دنیاکے اکثرحصوں میں طوائف الملوکی کادورتھابغاوتیں ہوتیں،کشت وخون ہوتے اوران ہنگاموں کے درمیان انسان بری طرح پامال ہورہاتھا۔
ان مایوسی کے چھائے ہوئے بادلوں اورناامیدی کی گھٹاؤں کے درمیان بالآخرعام الفیل ماہ ربیع الاول میں اپریل۵۷۰ء بروزپیرکواس عظیم ہستی کودنیامیں بھیجاگیاجوکائنات کے لئے ابررحمت اورانسانیت کے لئے محسن اعظم بنے۔
آپ کی ۲۳سالہ انتھک محنت سے لوگ سارے مصنوعی رنگوں سے آزادہوکرایک ہی رنگ میں رنگے گئے،مسجدسے بازارتک،مدرسہ سے عدالت تک اورگھرسے میدان جنگ تک ایک ہی رنگ چھاجاتاہے۔
اس محنت کے نتیجے میں لوگوں کے ذہن بدل گئے،خیالات کی روبدل گئی،نگاہ کازاویہ بدل گیا،حقوق وفرائض کی تقسیمیں بدل گئیں،خیروشرکے معیارات اورحلال وحرام کے پیمانے بدل گئے،معیشت اورازدواج کے اطواربدل گئے،سابقہ تہذیب وتمدن کے ایک ایک ادارے اورایک ایک شعبے کی کایاپلٹ گئی،انسانیت نے سکھ کاسانس لیااوراپنے مقام ورفعت کوپہچانا۔
اس ہمہ گیرانقلاب اورتبدیلی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیروفلاح اورانسانیت کی بہبودکے سواکچھ نہیں ملتا،کسی گوشے میں شرنہیں،کسی کونے میں فسادنہیں،کسی جانب بگاڑنہیں،ہرطرف بناؤہی بناؤ،تعمیرہی تعمیراورارتقاء ہی ارتقاء ہے۔
بنی نو ع انسانی بلکہ اس پوری کائنات چرندوپرند،شجروحجر،سماء وارض حتّٰی کہ حیوانات پربھی محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شماراحسانات ہیں جن کی تفصیل اورشمارممکن نہیں ہے۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی بدولت دنیاکوعقیدۂ توحیدکی نعمت ملی،آپ نے وحدت انسانی کاتصوردیااورانسانیت کے احترام اورانسان کی قدرقیمت کاسبق دیا،انسان پرچھائی ہوئی مایوسی کی کیفیت کودورکردیا،آپؐہی کے ذریعے دین ودنیاکی وحدت کاتصورملااورآپ نے منزل مقصودسے بے خبرانسان کواس کی منزل سے آگاہ کردیا۔
درحقیقت حضورمحسن کائناتﷺکے ہاتھوں انسانی زندگی کونشأۃ ثانیہ حاصل ہوئی اورحضورﷺنے ایک نظام حق سے صبح درخشاں سے مطلع تہذیب کوروشن کرکے بین الاقوامی دورتاریخ کاافتتاح فرمایایہ اتنابڑاکارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
یہ نبی مکرمﷺکی ۲۳سالہ انقلابی دعوت تھی جوبے انتہاء قربانیوں سے تکمیل کوپہنچی یہ اس کام کااجمالی نقشہ تھاجسے آپﷺنے اپنی قیادت میں سرانجام دیااسی لئے انسانیت اوراس کائنات کے سب سے بڑے بلکہ یکتامحسن اعظم ہونے کاشرف صرف اورصرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل ہے اوربس!!!(محسن اعظمﷺ)