سوال
میں اپنی جائیداد اور مال کے بارے میں وصیت کرنا چاہتاہوں اپنی اولاد کے لیے اور میری بیوی بھی زندہ ہیں ، تو مجھے کیا وصیت کرنی چاہیے ؟
جواب
ورثاء کا حق تو شریعت نے خود مقررکررکھاہے، ان کے حصے بھی شرعی طور پر متعین ہیں ، لہذا ان کے لیے آپ کو وصیت کرنے کی حاجت نہیں ،البتہ اگر آپ نے اولا د میں مال کی تقسیم سے متعلق کوئی وصیت کی تو وہ وصیت حدیث شریف کی رو سے تمام ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی ،اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور آپ کی وصیت کردہ تفصیل کے کے مطابق آپس میں وراثت تقسیم کریں تو اس کی اجازت ہے،لیکن اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو آپ کی وصیت نافذ العمل نہ ہوگی،بلکہ ان کے جو شرعی حصے متعین ہیں اس کے مطابق ان کے درمیان وراثت تقسیم ہوگی۔
مشکوۃ شریف میں ہے :
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے ( ابوداؤد ، ابن ماجہ)۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگر جب کہ وارث چاہیں۔
صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :
( اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے الخ ) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے لئے حصے متعین ومقرر فرما دیئے ہیں خواہ وہ کسی وارث کے حق میں یہ وصیت کر بھی جائے کہ اسے دوسرے وارثوں سے اتنا زیادہ حصہ دیا جائے تو شرعی طور پر اس کا کچھ اعتبار نہیں ہاں اگر تمام ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور وہ برضاء و رغبت کسی وارث کو میت کی وصیت کے مطابق اس کے حصے سے زیادہ دیدیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے… آیت میراث نازل ہونے سے پہلے اپنے اقرباء کے حق میں وصیت کر جانا واجب تھا مگر جب آیت میراث نازل ہوئی اور تمام ورثاء کے حصے متعین و مقرر ہو گئے تو وصیت کا واجب ہونا منسوخ ہو گیا ۔