داغنے کے ذریعہ علاج کرنے کی شرعی حیثیت

-->

سوال

ہمارے علاقے میں لوگ ایک طریقے سے علاج کرتے ہیں ،ہمارے ہاں اس کو ”ڈم”کہتے ہیں ،یعنی لوہے کو گرم کرکے جسم پر لگانا۔کمروغیرہ پر علاج کے لیے لگایاجاتاہے،کیاشرعی لحاظ سے یہ طریقہ ٹھیک ہے؟

جواب

مذکورہ علاج کو عربی میں ”کیّ”کہتے ہیں جس کا اردو ترجمہ ہے:”داغنا”۔اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایات میں ممانعت بھی منقول ہے اور بعض احادیث مبارکہ میں اس کی اجازت اور اس علاج کو اختیار کرنے کا ذکر بھی آتاہے،فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر دیگراسباب کے ذریعہ مرض کا علاج ممکن ہوتو ”داغنے”سے احتراز کیاجائے اور اگر کسی مرض کا علاج کسی اور ذریعہ سے ممکن نہ ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ صرف

”داغنے”سے ہی فائدہ ہوسکتاہے اس صورت میں ”داغنے”کی اجازت ہے ،اس طرح دونوں احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔چنانچہ مشکوۃ شریف میں دونوں طرح کی احادیث مبارکہ کو جمع کیاگیاہے ،ممانعت اور جواز کی احادیث درج ذیل ہیں:

”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے: بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں ۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں”۔

اور اجازت کی حدیث درج ذیل ہے:” حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (کہ جس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں )کے دن حضرت ابی کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہو گیا ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو داغ دیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم کے منہ کو داغنے کا حکم فرمایا یا خود اپنے دست مبارک سے داغا تاکہ خون بند ہو جائے ”۔

دونوں طرح کی احادیث ذکرکرنے کے بعد مشکوۃ شریف کے شارح علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ نے مفصل تشریح اور تطبیق لکھی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ وہ مکمل تفصیل ذیل میں درج کی جائے،ملاحظہ ہو:

 ”سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی ( جسمانی ) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی ۔چنانچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کے ذریعہ اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے۔ نیز آگ سے داغنے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عاجز ہو جائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہو جاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اخر الدواء الکی یعنی آخری دوا داغنا ہے۔ رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے ۔ چنانچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ آخر الدوء الکی ۔ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فاسد عقیدے کی تردید اور لوگوں کو شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی اور یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے ورنہ اگر کوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطور علاج اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے جائز ہے ۔بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت کا تعلق خطرہ اور تردد کی صورت سے ہے یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے سے فائد ے کے جزم کی بجائے نقصان اور ہلاکت جان کا خوف اور خطرہ ہو تو پھر داغنا نہ چاہئے ۔ اس مسئلہ میں بعض شارحین حدیث نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ داغنے کے سلسلہ میں مختلف احادیث منقول ہیں بعض احادیث تو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور بعض نہی کو ثابت کرتی ہیں جیسے مذکورہ بالا احادیث اور دوسری احادیث ،اسی طرح بعض احادیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں داغنے کو پسند نہیں کرتا اور بعض احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف کی گئی ہے، اس طرح ان احادیث کے باہمی تعارض و تضاد کو دور کرنے اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے یہ لکھا ہے کہ جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغا تو یہ اصولی طور پر داغنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے اور جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس جواز کے منافی نہیں ہے کیونکہ عدم پسندیدگی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا، چنانچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن دوسروں کے لئے اس کی ممانعت بھی نہیں فرماتے تھے ، اسی طرح جن احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف منقول ہے وہ بھی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ مدح و تعریف کا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ داغنے کو اختیار نہ کرنا محض اولی اور افضل ہے نہ کہ ضروری ہے، البتہ جن احادیث میں داغنے کی ممانعت صراحت کے ساتھ منقول ہے تو وہ ممانعت دراصل اس صورت پر محمول ہے جب کہ داغنے کو اختیار کرنا یا تو سبب مرض کے بغیر ہو یا مرض کے دفعیہ کے لئے اس کی واقعی حاجت نہ ہو بلکہ وہ مرض دوسرے علاج معالجہ سے دفع ہو سکتا ہے، نیز جیسا کہ او پر بیان کیا گیا ہے یہ ممانعت اس بات پر بھی محمول ہے کہ یہ ممانعت داغنے کے بارے میں مذکورہ بالا فاسد عقیدے اور شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ہے اور اگر اس طرح کا فاسد عقیدہ نہ رکھا جائے تو یہ ممانعت نہیں ہو گی۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض صحابہ کے بارے میں داغنے کا حکم دینا اس بنا پر تھا کہ ان صحابہ کے زخم بہت خراب ہو گئے تھے اور بعض عضو کے کٹ جانے کی وجہ سے اخراج خون میں کمی نہیں ہو رہی تھی، نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ داغنے کے صحت یقینی ہے۔ حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے اور طبیب خاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہوگا ”۔(مظاہر حق ،4/239,240،ط:دارالاشاعت کراچی)

اپنا تبصرہ بھیجیں