سوال
میرے بیٹے نے ایک شخص سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا،اس شخص نے بچے سے کہاکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ نہیں کرناچاہیے بلکہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرناچاہیے،دونوں ہاتھوں سے مصافحہ اسے کریں جس کی بہت زیادہ تعظیم مقصودہو،پوچھنایہ ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے کریں یادونوں ہاتھوں سے؟
جواب
ملاقات کے وقت جذبہ اکرام واحترام کے اظہارکاایک ذریعہ مصافحہ بھی ہے،چنانچہ ترمذی شریف کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا”سلام کاتکملہ مصافحہ ہے”۔ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرناچاہیے ،یہی مسنون طریقہ ہے،البتہ اگر کوئی عذر درپیش ہوتوپھرایک ہاتھ سے بھی مصافحہ کیاجاسکتاہے۔مولانایوسف لدھیانوی شہیدؒ لکھتے ہیں:”صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا ارشادہے:مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی اوراس طرح سکھائی کہ میراہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ امام بخاریؒ نے یہ حدیث ”باب المصافحۃ”کے تحت ذکرفرمائی ہے،اوراس کے متصل ”باب الاخذبالیدین”کاعنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرر ذکر فرمایاہے،جس سے ثابت ہواکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرناسنت نبوی ہے۔علاوہ ازیں مصافحہ کی روح ،جیساکہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ذ کر فرمایاہے:”اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا،باہمی الفت ومحبت کااظہارہے”۔اورفطرت سلیمہ سے رجوع کیاجائے تو صاف محسوس ہوگاکہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع وانکسار،الفت ومحبت اوربشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی”۔ (فتاویٰ شامی،کتاب الحظروالاباحۃ،6/381،ط:ایچ ایم سعید-صحیح البخاری،کتاب الاستیذان،باب الأخذبالیدین،2/926، ط:قدیمی -معارف الحدیث ،6/744،ط:دارالاشاعت کراچی-معارف نبوی،جلد سوم،ص:214،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی)