میت پر قرض کا دعویٰ کرنے کا حکم،بیوی کے نام مکان کرنا

-->

سوال

جناب مفتی صاحب!عرض یہ ہے کہ اسلام کی روشنی میں ان دونوں مسائل کا حل بتائیں۔١۔اگرکوئی شخص عدم ثبوت وگواہوں کے صرف اللہ کی قسم کھاکر، حلف دے کرقسم کو ثبوت بناکر کسی شخص کی وفات کے بعد اس وفات شدہ بندے کے وارثوں سے قرض کی رقم یادوسری دنیاوی چیز عوضِ حلف وصول یاخریدسکتاہے؟جب کہ مذکورہ مرحوم آدمی نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے وارثوں اور کسی بھی فرد کو نہ بتایاہو۔کیامرحوم کے وارث حلف کی بنیاد پر دنیاوی چیز یاقرض کی رقم دے سکتے ہیں؟۔ اگرایک آدمی شادی سے پہلے اپنی ذاتی آمدنی سے ایک پلاٹ خرید ا اورمکان بنواکر اپنی بیوی کے نام کردیتاہے اور خود اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتاہو،کچھ عرصہ بعد اس کی بیوی کاانتقال ہوجائے،متوفیہ پر قرض ہو قرآن کے مطابق قرض کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی؟اب مذکورہ نام کیاگیامکان اس کاترکہ ہوگا؟اور مکان کی میراث ہوگی؟دونوں سوالوں کا جواب اسلام کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔(محمد فاروق ،شاہ فیصل کالونی کراچی)

جواب

١۔شریعت میں دعویٰ کرنے والے پرگواہوں کا پیش کرنالازم ہے ،اور اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تومدعی علیہ(جس پر دعویٰ کیا جائے)سے قسم لی جائے گی۔لہذااگرمرحوم نے ترکہ چھوڑاہے،اور مذکورہ شخص جو میت پرقرض یاکسی اورچیز کادعویٰ کررہاہے اگراس شخص کے پاس اپنے اس دعویٰ پر گواہ نہ ہوں،اور میت کے ورثاء میں سے کوئی اس شخص کے دعویٰ کااقراربھی نہیں کرتاتواس صورت میں مذکورہ شخص حلف کے ذریعہ قرض وصول نہیں کرسکتا،بلکہ شرعی طور پر یہ دعویٰ کرنے والاشخص میت کے ورثاء سے حلف لے لے کہ انہیں اس قرض کا علم نہیں اور نہ میت نے انہیں بتایاہے،اگر ورثاء اس بات پر حلف اٹھالیتے ہیں تو مدعی کادعویٰ ساقط ہوجائے گا۔ اور اگرمیت کے ورثاء حلف اٹھانے سے انکار کریں تو دعویٰ لازم ہوجائے گا۔”وإن لم تکن للمدعی بینۃ وأراد استحلاف ہذا الوارث یستحلف علی العلم عند علمائنا – رحمہم اللہ تعالی – باللہ ما تعلم أن لہذا علی أبیک ہذا المال الذی ادعی وہو ألف درہم ولا شیء منہ،فإن حلف انتہی الأمر وإن نکل یستوفی الدین من نصیبہ”۔(فتاویٰ ہندیہ، کتاب ادب القاضی، الباب الخامس والعشرون فی اثبات الوکالۃ والوراثۃ وفی اثبات الدین،-فتاویٰ شامی، 5/553،ط:دارالفکر بیروت)

2۲۔اگر مذکورہ مکان بیوی کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے قبضہ میں بھی دے دیاتھاتواس صورت میں یہ مکان مرحومہ کاترکہ شمار ہوگا،مرحومہ کے ترکہ میں اگر صرف یہی مکان ہوتو اسے فروخت کرکے مرحومہ کاقرض اداکیاجائے گااور بقیہ اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔اور اگر شوہر نے مذکورہ مکان صرف بیوی کے نام ٹرانسفرکیاتھاقبضہ اور تمام تصرفات شوہرہی کے پاس تھے تواس صورت میں یہ شوہرہی کی ملکیت شمار ہوگابیوی کے ترکہ میں شامل نہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں