سوال
ایک مسئلہ دریافت طلب ہے ،اخبار کے ذریعہ ہی مطلع فرمائیں، ایک صاحب نے مرنے سے پہلے اپنا بنگلہ 600مربع گز کاقیمت تقریباً چار کروڑ اپنی اکلوتی بیٹی کے نام ہبہ کردیا، اور چھ سگے لڑکوں کو بوجہ ناراضگی محروم کردیا۔ حالانکہ بیٹے نہ بدکردار تھے نہ کافر یامرتد تھے۔نہ ماں باپ کے قاتل ہیں۔بیٹی کاحق لڑکے سے نصف ہے، یہ کونسا انصاف ہے کہ چھ بیٹے ورثہ سے محروم کردیئے جائیں، ایسی صورت میں لڑکی کو کیا کرنا چاہیے؟ایسی جائیداد قبول کرلے یا فروخت کرکے بھائیوں کا حصہ دیدے؟شرعی جواب مطلوب ہے، باپ کا فعل جائزہے یاناجائزہے؟(عبدالصمد قریشی،کراچی)
جواب
جواب سے قبل چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں:١۔زندگی میں کسی بھی شخص کااپنی جائیداد واموال اپنے ورثاء میں تقسیم کرنا ہبہ (گفٹ)کہلاتاہے، زندگی میں ہی ہبہ کرنے کی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر کا حصہ دیاجائے، یعنی جس قدر بیٹوں کو دے اسی قدر بیٹیوں کو بھی دے۔البتہ کسی ایک بچے کو اس کی خدمت گزاری ،دینداری وغیرہ کے پیش نظر
دوسروں کی بنسبت زیادہ دیاجائے تو بھی جائزہے۔کسی ایک وارث کو ساری جائیدادہبہ کرکے مالک بنادینااور باقی ورثاء کو محروم کرناناجائزاورسخت گناہ ہے۔حدیث شریف میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:” حضرت نعمان بن بشیر کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے والد حضرت بشیر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے (نعمان)کو ایک غلام عطا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر نعمان سے بھی اس غلام کو واپس لے لو ۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعمان کے والد سے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں (یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو ، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں اور سب ہی تمہاری فرمانبرداری اور تمہاری تعظیم کریں ؟)انہوں نے کہا کہ ہاں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس صورت میں (جب کہ تم نے اپنے تمام بیٹوں سے اپنے تئیں یکساں اچھے سلوک کے خواہشمند ہو تو ) صرف اپنے ایک بیٹے (نعمان)کو غلام نہ دو۔ ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت نعمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے ایک چیز دی تو عمرہ بنت رواحہ( میری والدہ) نے میرے والد حضرت بشیر سے کہا کہ میں اس پر اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں جب تک کہ تک اس ہبہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو۔ چنانچہ حضرت بشیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو جو عمرہ بنت رواحہ کے بطن سے ہے ایک چیز دی ہے اور عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے کہا کہ میں اس ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ جس طرح تم نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے کیا اسی طرح اپنے سب بیٹوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو ۔ حضرت نعمان کہتے ہیں کہ میرے والد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر)واپس آئے اور مجھے جو چیز دی تھی وہ واپس لے لی۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بشیر کی یہ بات سن کر فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا”۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے درمیان فرق وامتیاز کرنا انتہائی نامناسب ہے چنانچہ ارشاد گرامی کی روشنی میں یہ مستحب ہے کہ کوئی چیز اپنے کسی ایک بیٹے بیٹی کو نہ دی جائے بلکہ وہ چیز برابری کے طور پر سب بیٹے بیٹیوں کو دی جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے:” حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا ”۔
٣۔اگرکسی ایک وارث کو میراث سے محروم کردیاگیایاکسی ایک کودے کر باقی ورثاء کو میراث سے محروم کردیاگیاتواس صورت میں اگر مرنے والے نے باقاعدہ قبضہ کے ساتھ جائیداد واموال دے دیئے ہیں تو جس کو دیئے گئے ہیں وہ مالک بن جائے گا،کیونکہ مالک ہونے کی حیثیت سے دینے والا مجاز ومختارہے۔اب اس جائیداد میں دیگر ورثاء کاحصہ نہیں ہوگانہ ہی دیگر ورثاء مطالبہ کرسکتے ہیں، البتہ بقیہ ورثاء کومیراث سے محروم کرنے والا سخت گناہ گارہے۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرمرحوم نے اپنی ساری جائیداد ایک بیٹی کودے کرقبضہ اور مکمل اختیاربھی اس کے حوالے کردیاتھاتواس سے ہبہ (گفٹ)مکمل ہوگیااب وہ جائیداد اسی بیٹی کی ملکیت ہے ،بھائی مطالبہ نہیں کرسکتے،البتہ چونکہ والد نے یہ تقسیم منصفانہ نہیں کی اس لیے والد گناہ گارہوں گے۔اور اگرجائیداد صرف بیٹی کے نام کی ہے قبضہ اور دیگراختیارات نہیں دیئے تھے تواس صورت میں وہ جائیداد مرحوم والد کا ترکہ شمارہوگی اور تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔(مشکوۃ المصابیح ،ص:261،ط:قدیمی کتب خانہ کراچی-البحرالرائق، کتاب الھبۃ،7/490،ط:رشیدیہ-فتاویٰ ہندیہ ،کتاب الھبۃ،4/319،ط:رشیدیہ-)