سوال
طلاق کے بارے میں دریافت کرناہے،اگرکسی شخص کااپنی بیوی کے ساتھ رہنامشکل ہو،اوربیوی بھی کافی عرصہ سے میکے جاکربیٹھی ہوئی ہے،اب اسے فارغ کرنے کاارادہ کرلیاہے،توطلاق دینے کابہترطریقہ کیاہے؟تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں ؟یاکوئی اورطریقہ ہے؟
جواب
اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہواورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت کے گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے توبھی درست ہے،اس کو شریعت میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔لیکن اگربیک وقت تین طلاقیں دے دی جائیں اگرچہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی مگراس طرح کرناشرعاًناپسندیدہ ہے،اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگروجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اگرایک طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی،رجوع پرگواہ بنالینابہترہے،اوراگرعدت پوری ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا)کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کامالک ہوگا…۔(فتاویٰ شامی،3/230،ط:ایچ ایم سعید-فتاویٰ رحیمیہ،جلدہشتم،ص:290،ط:دارالاشاعت کراچی)