سوال
١۔مہرکے بارے میں کیا حکم ہے؟یعنی عورت کے مہر کی ادائیگی کے بارے میں شریعت کیاکہتی ہے،شادی کے بعد کب دیناچاہیے؟ ٢۔دوسرایہ کہ عورت سے جومہرمعاف کروادیاجاتاہے کیامعاف ہوجاتاہے؟شریعت کا حکم کیاہے؟٣۔اگر کئی سال قبل دس ، گیارہ ہزار مہررکھاابھی تک ادانہیں کیااور اب تو کرنسی بڑھ گئی ہے کیاوہی مہرلازم ہے؟
جواب
١۔مہرعورت کا حق ہے،جس قدر جلد اداکیاجائے زیادہ بہترہے،بلاوجہ حق مہرکی ادائیگی میں تاخیرنہیں کرنی چاہیے،قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:”اوردے ڈالوعورتوں کواُن کے مہرخوشی سے ”۔(النسائ:4)اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مہر عورت کاحق ہے اور شوہرپراس کی ادائیگی واجب ہے،س طرح دیگرحقوق واجبہ کوخوش دلی کے ساتھ اداکرناضروری ہے ، اسی طرح مہرکوبھی خوش دلی کے ساتھ اداکرنالازم ہے۔٢۔اگرعورت خوش دلی سے بغیرکسی جبرکے مہرمعاف کردے تومعاف ہوجاتاہے،زبردستی معاف کروانے سے معاف نہیں ہوگا۔قرآن کریم کی سورہ نساء میں ارشادباری تعالیٰ ہے:”اگروہ عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمہیں دے دیں توتم اس کوکھاسکتے ہو”۔مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”آیت شریفہ میں جو یہ قید لگائی” طیب نفس” کی کہ خوشی سے تمہاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دیدیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو ،اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لئے حلال نہیں ہے ،جب تک کہ طیب نفس سے اجازت نہ ہو، بطور قاعدہ کلیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو !کہ کسی شخص کا مال(دوسرے شخص کے لئے) حلال نہیں ہے، جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو” ۔ یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آجاتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں چونکہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہو گی، اس لئے بادل ناخواستہ معاف کر دیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔ سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے تھے کہ صحیح معنی میں طیب نفس سے معاف کرنے کا پتہ اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالہ کر دی جائے، اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دیدے ”۔٣۔جی ہاں! جتنی نقد رقم مہرمیں مقررہوئی تھی اسی رقم کی ادائیگی واجب ہے۔(معارف القرآن ، جلد دوم ،ص:298,299،ط:مکتبہ معارف القرآن )