سوال
عیسائی عورت سے نکاح کرسکتے ہیں یانہیں؟
جواب
عیسائی عورتوں سے نکاح کے بارے میں بھی شریعت میں تفصیلات موجودہیں،اہل کتاب سے نکاح اس وقت جائزہے جب حقیقتاً وہ آسمانی کتاب کے ماننے والے اور اس کے تابعدارہوں۔دھریے نہ ہوں۔فی زمانہ یہودونصاریٰ کی اکثریت آسمانی کتاب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لہذا ان سے نکاح جائزنہیں۔البتہ اگرتحقیق سے کسی عورت کااہل کتاب ہوناثابت ہوجائے توا س سے اگرچہ نکاح جائزہے تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورمبارک میں اس پرسخت ناراضگی کااظہارفرمایاتھا۔علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اہل کتاب کے ایک مخصوص حکم کے ساتھ دوسرا مخصوص حکم بھی بیان فرما دیا۔ یعنی یہ کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا شریعت میں جائز ہے۔ مشرکہ سے اجازت نہیں (وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ) 2۔ البقرۃ:221) مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے “نصاریٰ” عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں، ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں، نہ مذہب کے نہ خدا کے، ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہل کتاب کا سا نہ ہوگا ۔نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں ۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سے انتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ موجودہ زمانہ میں یہود نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا بےضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا، یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں وہ مخفی نہیں ۔ لہذا بدی اور بد دینی کے اسباب و ذرائع سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔”۔(تفسیرعثمانی، سورہ مائدہ)
حضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے تفسیر معارف القرآن میں اہل کتاب سے نکاح کرنے سے متعلق قدرسے تفصیلی کلام فرمایاہے ،جو بڑی اہمیت کاحامل ہے،ذیل میں اس تفصیل کا کچھ حصہ درج کیاجاتاہے:
” جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک اگرچہ از روئے قرآن اہل کتاب کی عورتوں سے فی نفسہ نکاح حلال ہے لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اور خرابیاں اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کے لئے ازرُوئے تجربہ لازمی طور سے پیدا ہوں گی۔ ان کی بناء پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو وہ بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ جصاص نے احکام القرآن میں شقیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کر لیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دیدو ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لئے حرام ہے، تو پھر امیر المؤ منین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں حرام نہیں کہتا لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر عفت و پاکدامنی نہیں ہے۔ اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانہ میں اس راہ سے فحش و بدکاری داخل نہ ہو جائے۔ اور امام محمد بن حسن رحمة اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو بروایت امام ابوحنیفہ اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا تو اس کے یہ الفاظ تھے:
” آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کردو کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتداء کریں اور اہل ذمہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں تو مسلمان عورتوں کے لئے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی”۔
اس واقعہ کو نقل کر کے حضرت محمد بن حسن رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ فقہائے حنفیہ اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ اس نکاح کو حرام تو نہیں کہتے، لیکن دوسرے مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہیں اور علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے کہ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ طلحہ اور کعب بن مالک کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے آیت مائدہ کی بناء پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر لیا تو جب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو سخت ناراض ہوئے اور ان کو حکم دیا کہ طلاق دیدیں ۔ (مظہری)
فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ ہے۔ جب اس کا کوئی احتمال نہ تھا کہ کوئی یہودی، نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کر سکے۔ اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان میں بدکاری ہو تو ان کی وجہ سے ہمارے گھرانے گندے ہو جائیں یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو ترجیح دینے لگیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑ جائیں ۔ مگر فاروقی نظر دُوربین اتنے ہی مفاسد کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کرتی ہے۔ اگر آج کا نقشہ ان حضرات کے سامنے ہوتا تو اندازہ کیجئے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا۔ اول تو وہ لوگ جو آج اپنے نام کے ساتھ مردم شماری کے رجسٹروں میں یہودی یا نصرانی لکھواتے ہیں ان میں بہت سے وہ لوگ ہیں جو اپنے عقیدہ کی رُو سے یہودیت و نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں ۔ نہ ان کا تورات و انجیل پر عقیدہ ہے نہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر ۔ وہ عقیدہ کے اعتبار سے بالکل لا مذہب اور دہریئے ہیں ۔ محض قومی یا رسمی طور پر اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی کہتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی عورتیں مسلمان کے لئے کسی طرح حلال نہیں ۔ اور بالفرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان کے لئے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دینا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں، جن کے عبرت نامے روز آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت کو تباہ کر دیا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔
الغرض قرآن و سنت اور اسوہ صحابہ کی روُ سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ آج کل کی کتابی عورتوں کو نکاح میں لانے سے کلّی پرہیز کریں ۔”(معارف القرآن ،سورہ مائدہ)