ڈراموں میں دی جانے والی طلاق اور نکاح کا حکم

-->

سوال

حدیث میں ہے کہ نکاح طلاق مذاق میں بھی ہوجاتے ہیں ،تو کیاجو ڈراموں میں ایجاب وقبول کرتے ہیں، طلاق دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

جی بالکل! ہنسی مذاق میں دی جانے والی طلاق اورکیاجانے والا نکاح دونوں منعقد ہوجاتے ہیں ، ترمذی شریف کی روایت میں ہے” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جو نیت کے ساتھ تو واقع ہوتی ہیں ،مذاق میں بھی واقع ہو جاتی ہیں: طلاق، نکاح اور طلاق کے بعد رجوع کرنا”۔اس حدیث کے تحت مولانامحمدمنظورنعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ہنسی مذاق میں نکاح کیا،یااسی طرح ہنسی مذاق میں بیوی کو طلا ق دی،یامطلقہ بیوی سے ہنسی مذاق میں رجعت کی، توشریعت میں یہ سب چیزیں واقع اور معتبر ہوں گی۔یعنی نکاح منعقد ہوجائے گا، طلاق پڑجائے گی اور رجعت ہوجائے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں اسلامی شریعت میں اتنی نازک اور غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں ،کہ انکے بارے میں ہنسی مذاق کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی ہے، ان کے بارے میں جو کچھ آدمی کی زبان سے نکلے گا، اس کوحقیقت اور سنجیدہ بات ہی سمجھا جائے گا۔دوسرے لفظوں میں یہ سمجھناچاہیے کہ اسلامی شریعت میں یہ میدان ہی ہنسی مذاق کانہیں ہے۔ ”

ڈراموں میں دی جانے والی طلاق اگرحکایت اور نقل کے طور پر ہوتوطلاق واقع نہ ہوگی،اگراجنبی مرد کسی غیر کی منکوحہ کو طلاق دے تووہ بھی واقع نہ ہوگی، البتہ اگرمیاں بیوی ہوں اور ڈرامے میں شوہراپنی بیوی کو بہ طور مذاق طلاق دے توطلاق واقع ہوجائے گی۔اسی طرح ڈراموں میں اجنبی (غیر محرم)مرد اور عورت کا جب کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں بھی نہ ہو اگرباقاعدہ شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہوتو وہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔(معارف الحدیث ، 7/473ط:دارالاشاعت کراچی)

اپنا تبصرہ بھیجیں