چوری کیاہوامال خریدنا

-->

سوال

ایک شخص ایک ہوٹل میں ملازمت کرتاہے وہاں سے مصالحے وغیرہ مختلف چیزیں لاتاہے،چونکہ وہ بہت بڑاہوٹل ہے اس لئے اس شخص سے کوئی پوچھتانہیں،لیکن مالک کی اجازت کے بغیرلاتاہے،اورپھرلاکرلوگوں میں سستے داموں فروخت کرتاہے ،اگرکوئی چیزدوسوکی ہے تووہ ایک سوپچاس میں دیتاہے،میری والدہ کہتی ہیں کہ اس سے خریدلیاکرویہ سستادیتاہے،کیااس طرح اس شخص سے خریدسکتے ہیں ؟جب کہ وہ بغیراجازت کے ایک ہوٹل میں ملازم ہونے کی حیثیت سے وہاں سے اٹھاکرلاتاہے؟

جواب

مالک کی اجازت کے بغیراس کی چیز اٹھانااوراسے آگے فروخت کرنادونوں ہی بڑے جرم ہیں،ہوٹل کے مالک کی اجازت کے بغیرمصالحے وغیرہ اٹھاکرلانا صراحتاً چوری میں شامل اورناجائزفعل ہے،ایسے افرادکواپنے فعل سے توبہ کرنی چاہیے اور چوری کردہ ما مالک کوواپس لوٹاناچاہئے۔قرآن وحدیث میں بغیراجازت کے کسی کے مال لینے کوحرام قرار دیا گیاہے، قرآن کریم کی سورہئ نساء میں ہے:”اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طورپر مت کھاؤ،مگریہ کہ باہمی رضامندی سے کوئی تجارت ہو”۔ ناحق طریقے سے کسی کامال کھانے میں ڈاکہ ، چوری،رشوت ، غصب،خیانت ، سوداوروہ تمام صورتیں شامل ہیں جنہیں شریعت نے ناجائزقراردیاہے۔ نیزحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”خبردار!کسی پرظلم نہ کرنا،جان لو!کسی دوسرے شخص کامال لینایااستعمال کرنااس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے”۔لہذاملازم کے لئے مالک کی اجازت کے بغیرکسی بھی ادارے کی اشیاء کااٹھاناجائزنہیں ،نیزجس چیزکے متعلق معلوم ہوکہ یہ چوری کی ہے اس کاخریدناجائزنہیں ہے،نیزایسے لوگوں سے چوری شدہ اشیاء کاخریدناان کے ساتھ گناہ کے کام میں معاونت ہے۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی، ص:25، ط:قدیمی کراچی-فتاویٰ شامی،کتاب الحظروالاباحۃ، 6/385،ط:ایچ ایم سعید)

اپنا تبصرہ بھیجیں