حج اسلام کے بنیادی پانچ ارکان(توحید،نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج)میں سے آخری رکن ہے،نیزیہ فرض عین ہے،اوراس کی فرضیت کامنکرکافرہے،اورعمل نہ کرے والاسخت گناہگارہے۔
حج کیاہے؟ایک معین اورمقررہ وقت پراللہ کے عشاق کی طرح اس کے دربارمیں حاضرہونے اوراس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں اورطورطریقوں کی نقل کرکے ان کے مبارک سلسلے سے اپنی وابستگی اوروفاداری کاثبوت دینے اوراپنی استعدادکے بقدرابراہیمی جذبات وکیفیات سے حصہ لینے اوراپنے کوان کے رنگ میں رنگنے کے عمل کانام ہے۔اسلام کے دورکن نمازاورزکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ کی شان حاکمانہ وشاہانہ کارنگ غالب ہے اورحج میں اللہ تعالیٰ کی صفت کمال وجمال اورشانِ محبوبیت کارنگ نمایاں ہے،بندے اپنے رب کے سامنے محبت اوردیوانگی کے مناظرپیش کرتے ہیں۔
دنیاکی تاریخ میں حج کاشماراہم ترین عبادات میں ہواہے اوریہ شعائراسلام میں سے ہے،حج جانی ومالی دونوں عبادتوں کامجموعہ ہے،حج بے شمارسفری مشقتوں اورصعوبتوں کاحامل ہے،اسی لئے اس کوجہادکامماثل قراردیاگیاہے۔
موسم حج کے شروع ہوتے ہی جن عشّاق کوبارگاہ الٰہی میں حاضری کااذن ملااورجن خوش بختوں کے حق میں یہ سعادت مقدرہے ان کے قافلے رواں دواں ہیں،اوراطراف عالم سے دیارِمحبوب کی جانب لپکے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یوں توہرعبادت کے لئے قدم قدم پررحمت وعنایت اوراجروثواب کے وعدے فرمائے ہیں،لیکن تمام عبادات میں حج بیت اللہ کی شان سب سے نرالی ہے۔احادیث مبارکہ میں حج کرنے پربڑی فضیلتیں اوراس فریضہ کی ادائیگی میں بلاعذر تاخیر کرنے یااس کوترک کرنے والے کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔فضیلت اس قدرہے کہ ایک ایک قدم پرنیکیوں کے انبارلگتے ہیں اورگناہوں کے مٹانے اوردرجات کی بلندی کاسامان ہوتاہے۔
چنانچہ ایک روایت میں ہے:”جوشخص اللہ کے لئے حج کرے اس طرح کہ اس حج میں نہ فحش کلامی ہواورنہ ہی حکم عدولی، وہ حج کے سفرسے ایساواپس ہوتاہے جیسے اس دن تھاجس دن پیداہواتھا”۔(مشکوٰۃ)
یعنی جس طرح پیدائش کے وقت معصوم بچے پرگناہ یالغزش کاکوئی اثرنہیں ہوتااسی طرح رضاء الٰہی کے لئے حج کرنے والے کوتمام برائیوں سے پاک کردیاجاتاہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشادفرمایا:”حاجی کی سفارش اپنے اقرباء میں سے چارسوآدمیوں کے حق میں مقبول ہوگی”۔(بزار،ترغیب)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حج وعمرہ کرنے والے خداکے مہمان ہیں جوسوال کرتے ہیں ملتاہے،جودعاکرتے ہیں قبول ہوتی ہے،جوخرچ کرتے ہیں اس کابدل پاتے ہیں،اورایک درہم خرچ کرنے کاثواب دس لاکھ ملتاہے۔ (مسندبزار،ترغیب)
اگرکسی کے پاس استطاعت موجودہویعنی مکّہ تک آنے جانے کے سفرکاخرچ اورکھانے پینے کاانتظام کرسکتاہوپھربھی اس فریضہ میں کوتاہی کرے تواس کے لئے قرآن وحدیث میں سخت تنبیہ آئی ہے۔
ایک حدیث میں نبی علیہ السلام فرماتے ہیں:”جس شخص کے پاس اتناخرچ ہواورسواری کاانتظام ہوکہ بیت اللہ شریف جاسکے اورپھر وہ حج نہ کرے توکوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکر”۔(بہیقی)
کس قدرسخت تنبیہ ہے کہ حج نہ کرنے پریہودی یاعیسائی ہونے کی حالت میں مرجانے کی وعیدسنائی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھاہے کہ تارکِ حج کویہودونصاریٰ کے ساتھ تشبیہ اس لئے دی گئی کہ یہودونصاریٰ نمازپڑھتے تھے لیکن حج نہیں کرتے تھے۔
بہت سے مردوں اورعورتوں پرحج فرض ہوتاہے لیکن دنیاکے دھندوں،مصروفیات اوراولادکی شادی کابہانہ بنائے رہتے ہیں اورحج کاارادہ ہی نہیں کرتے،پھربسااوقات رقم ختم ہوجاتی ہے یاموت آجاتی ہے اورزندگی بھرحج نصیب نہیں ہوتااورسخت گناہگارہوکردنیاسے جاتے ہیں۔
اس لئے حج فرض ہوجانے کی صورت میں اس کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ موت کاکوئی بھروسہ نہیں کہ کس لمحے آجائے اورمہلت ختم ہوجائے!!۔