اسم اعظم کیا ہے؟

-->

سوال

مجھے اسم اعظم کے بارے میں بتادیں کہ اسم اعظم کیا ہے اور اس کی فضیلت کیا ہے؟

جواب

اسم اعظم کی فضیلت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس دعاکو قبول کرتے ہیں یعنی وہ دعا اکثر قبول ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد )

اسم اعظم کی تعیین کے بارے میں زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ اسم اعظم اللہ کے اسماء میں پوشیدہ ہے، تعین کے ساتھ اس کا کسی کو علم نہیں ہے جیسا کہ لیلۃ القدر ہے۔لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ اسم اعظم لفظ ”اللہ” ہے اور قطب ربانی حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے قول

کے مطابق اس شرط کے ساتھ کہ زبان سے جب ”اللہ” ادا ہو تو دل میں اللہ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو یعنی اس اسم پاک کی تاثیر اسی وقت ہو گی جب کہ اللہ کو پکارتے وقت دل ماسوا اللہ سے بالکل خالی ہو۔[مظاہرحق]

اسم اعظم کے بارے میں ذیل میں صاحب مظاہرحق علامہ نواب قطب الدین رحمہ اللہ کا تفصیلی کلام نقل کیاجاتاہے جوکہ اس سلسلہ میں شافی وکافی ہوگا،ملاحظہ فرمائیں:

 ” اسم اعظم کے تعین کے بارہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو لفظ” اللہ” کو اسم اعظم کہا ہے ۔کچھ علماء کہتے ہیں کہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم” اسم اعظم ہے۔ کچھ لوگوں نے لفظ ” ھو” کو اسم اعظم کہا ہے۔ بعض حضرات نے ”الحی القیوم ”کو بعض حضرات نے” مالک الملک” کو، بعض حضرات نے کلمہ تو حید کو اور بعض حضرات نے ”اللہ الذی لا الہ الا ہو رب العرش العظیم” کو اس اعظم کہا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین رحمہ اللہ  کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی کہ مجھے اسم اعظم بتائیے تو انہیں خواب میں دکھایا گیا کہ اسم اعظم ”لاالہ الا اللہ” ہے ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اسم اعظم اسماء حسنی میں مخفی ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ ”اللہم” اسم اعظم ہے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ جس شخص نے ”اللہم” کہا اس نے گویا اللہ سے اس کے تمام ناموں کے ذریعے دعا مانگی، اسی طرح کا قول حضرت حسن بصری  رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔ بعض حضرات” الم” کو اسم اعظم قرار دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات مثلا امام جعفر صادق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جو شخص اسماء الٰہی میں سے کسی بھی اسم کے ساتھ ”اللہ” کو اس طرح بطریق حضور استغراق یاد کرے کہ اس وقت اس کے باطن میں اس اسم کے علاوہ اور کچھ نہ ہو تو وہی اسم اعظم ہے اور اس کے ذریعہ مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت ابوسلیمان درانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شیخ کامل سے پوچھا کہ اسم اعظم کون سا ہے؟ تو انہوں نے پوچھا کیا تم اپنے دل کو جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں! انہوں نے فرمایا کہ جب تم یہ دیکھو کہ تمہارا دل اللہ کی طرف متوجہ اور نرم یعنی ترساں ولرزاں ہو گیا ہے تو اس وقت اللہ سے اپنی حاجت مانگو یہی اسم اعظم ہے۔ منقول ہے کہ حضرت ابوالربیع  رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ مجھے اسم اعظم کے بارہ میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ یہ لکھ لو ”اطع اللہ یعطیک ” یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو وہ تمہاری ہر درخواست قبول کرے گا اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی اسم اعظم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مہربان ہوتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ نیز فرمایا کہ عارف کا ”بسم اللہ الرحمن الرحیم ”کہنا ”کن” کی طرح ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ”کن” کہہ کر جو چاہتا ہے پیدا فرما دیتا ہے ایسے ہی بندہ کے لئے لئے بسم اللہ ہے کہ وہ جس کام کی ابتداء میں بسم اللہ کہتا ہے اس کی برکت سے وہ کام پورا ہو جاتا ہے۔بعض محققین فرماتے ہیں کہ یہ دعا تمام اقوال کی جامع ہے یعنی بزرگارن دین نے جن جن ناموں کو اسم اعظم کہا ہے وہ سب اس دعا میں آ جاتے ہیں۔ دعا :”اللہم انی اسألک بان لک الحمد لاالہ الا انت یا حنان یا منان یا بدیع السماوات والارض یا ذالجلال والاکرام یاخیرالوارثین یا ارحم الراحمین یا سمیع الدعاء یا اللہ یا ارحم الراحمین یا عالم یا سمیع یا حلیم یا مالک الملک یا مالک یا سلام یا حق یا قدیم یا قائم یا غنی یا محیط یا حکیم یا علی یا قاہر یا رحمن یا رحیم یا سریع یا کریم یا مخفی یا معطی یا مانع یا محیی یا مقسط یا حی یا قیوم یا احمد یا حمد یا رب یا رب یا رب یا رب یا رب یا وہاب یا غفار یا قریب یا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین انت حسبی ونعم الوکیل”۔ مذکورہ بالا دعا میں جتنے اسماء ذکر کئے گئے ہیں یہ سب اسم اعظم ہیں۔”[مظاہر حق،کتاب الدعوات،ص:509،513،ط:دارالاشاعت]

اپنا تبصرہ بھیجیں