سوال
کیانمازی کے سامنے سے گزرنے سے نمازی کی نمازٹوٹ جاتی ہے؟ہمارے ہاں یہ بات مشہورہے کہ نمازی کے آگے سے کوئی شخص گزراتونمازٹوٹ جائے گی اور نمازپڑھنے والااپنی نمازتوڑکردوبارہ شروع سے نمازپڑھتاہے۔
جواب
نمازی کے آگے سے گزرنے سے نمازی کی نمازفاسدنہیں ہوتی،نمازبدستوردرست ہے،نمازختم کرکے دوبارہ شروع سے نمازپڑھنے کی بھی حاجت نہیں،نمازجاری رکھنی چاہیے۔البتہ یہ یادرہے کہ نمازکے سامنے سے بغیرکسی عذرکے جان بوجھ کرگزرناسخت گناہ ہے،اورحدیث شریف میں اس پر وعیدبھی واردہے۔چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:”حضرت ابوجہیم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگریہ جان لے کہ اس کی کیاسزاہے،تووہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہترخیال کرے”۔اس حدیث کے ذیل میں علامہ نواب قطب الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ نے ”مشکل الآثار”میں فرمایاہے کہ یہاں چالیس سال مرادہے نہ کہ چالیس مہینے یاچالیس دن ، اورانہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص جواپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتاہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتاہے(یعنی نمازپڑھتاہے)اوروہ(اس کاگناہ)جان لے تو اس کے لئے اپنی جگہ پر ایک سوبرس تک کھڑے رہناقدم اٹھاکررکھنے سے بہترہوگا۔بہرحال !ان احادیث سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گزرنابہت بڑاگناہ ہے،جس کی اہمیت کااس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اگرکسی شخص کویہ معلوم ہوجائے کہ نمازی کے آگے سے گزرناکتنابڑاگناہ ہے اوراس کی سزاکتنی سخت ہے،تووہ چالیس برس یاحضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک سوبرس تک اپنی جگہ پر مستقلاً کھڑے رہنازیادہ بہترسمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے”۔(مظاہرحق،1/518،ط:دارالاشاعت کراچی)