نواسۂ رسول،جگرگوشہ بتول،نوجوانانِ جنت کے سردارسیدناحضرت حسن رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺکی سب سے چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے بطن سے اول فرزندہیں۔آپؓ کی اس سے زیادہ کیاعظمت ہوسکتی ہے کہ ایک طرف آپ کی نسبی شرافت آنحضرتؐ سے قریب ترہے دوسری طرف آپ کی تربیت بھی آغوش رسالت میں ہوئی ہے۔
مؤرخین کااس پراتفاق ہے کہ آپ کی پیدائش15رمضان المبارک3ھجری بمطابق یکم اپریل625ء کومدینہ منورہ میں ہوئی۔
حضرت علیؓ نے آپ کانام ’’حرب‘‘ رکھالیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرماکر’’حسن‘‘رکھ دیا۔
ان کی ولادت پرسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرورہوئے ،کان میں اذان دی اوراپنالعاب مبارک ان کے منہ میں ڈالا،ساتویں دن عقیقہ کے دومینڈھے ذبح کروائے۔
حضرت حسنؓ بچپن ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں رہے،بچپن کے ابتدائی سات سال تک حضرت حسنؓ نے صحبت نبوی پائی،صحیح بخاری کی روایت ہے کہ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبرپررونق افروزتھے اورحضرت حسنؓ آپ کے پہلومیں بیٹھے ہوئے،آپ ایک مرتبہ لوگوں کی طرف دیکھتے اورایک مرتبہ حضرت حسنؓ کی طرف،آپؐ نے فرمایایہ میرابیٹاسردارہے اورامیدہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوگروہوں کے درمیان صلح کروائے گا”
چنانچہ سن41ھ میں حضرت حسنؓ کی حضرت معاویہؓ سے صلح اورمحبت نے پیغمبراسلام کی بیان کردہ پیشگوئی کومن وعن پوراکردیا،اس صلح سے اسلام کی عظمت اوردین مصطفویؐ کی سربلندی کانیاباب کھل گیا۔
آپ کی کنیت ابومحمداورلقب ریحانۃ النبی تھا،شبر،مجتبیٰ اورشبیہ رسولؐ بھی آپ کے القاب میں شامل تھے۔
رسول اللہﷺان سے انتہائی محبت فرماتے تھے،اوران کے بچپنے کی شوخیاں برداشت فرماتے تھے اورازراہ عنایت کوئی سرزنش نہیں کرتے تھے کبھی ایسابھی ہوتاکہ آپﷺ سجدہ میں ہوتے اوریہ پشت مبارک پرسوارہوجاتے اورآپؐ نہ صرف یہ کہ بیٹھنے دیتے بلکہ ان کی خاطرسجدہ کواورطول دیتے،کبھی اپنے ساتھ منبرپربٹھاتے۔
حضرت حسنؓ کوسینہ سے سرتک یعنی فوقانی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت حاصل تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں کثیرفضائل منقول ہیں،چنانچہ حسنینؓ کے حق میں حضرت ابوہریرۃؓنے جناب نبی اقدسؐ سے یہ فرمان نقل کیاہے کہ”آنجنابؐ نے ایک بارارشادفرمایاکہ جس شخص نے ان دونوں کے ساتھ محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی اورجس نے ان کے ساتھ بغض وعنادرکھااس نے میرے ساتھ بغض رکھا”
مشہورصحابی حضرت ابوسعیدالخدریؓ حسنین کریمین ؓ کی ایک اعلی منقبت ذکرفرماتے ہیں:جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”حسنؓ اورحسینؓ اہل جنت کے جوانوں کے سردارہیں”۔
اسی طرح ان دونوں حضرات کوآپ علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی دنیاکے خوبصورت پھول قراردیا۔
آنحضرتؐ کی وفات کے بعدصدیق اکبرؓکے سوادوسالہ دورخلافت میں آپ کے خاندان نبوت سے تعلقات انتہائی مشفقانہ رہے،قرابت رسولؐ کی وجہ سے صدیق اکبرؓحضرت حسنؓ سے بے انتہاء محبت اورقدردانی فرمایاکرتے تھے۔
حضرت فاروق اعظمؓ مسندنشین خلافت ہوئے توانہوں نے بھی حسنین کریمینؓ کے ساتھ محبت آمیز برتاؤ رکھا اور ہر دونواسوں کے ساتھ احترام واکرام سے پیش آیاکرتے تھے،جب بیت المال قائم ہواتوان حضرات کے وظیفے اصحاب بدرکے وظیفوں کے برابرمقررکئے۔
دورعثمانی میں حضرت حسنؓ دورشباب میں داخل ہوچکے تھے اورسن رشدکوپہنچ چکے تھے،حضرت عثمانؓ کابرتاؤبھی آپ کے ساتھ محبت وشفقت والاتھا،حضرت عثمانؓ کے دورمیں اسلامی لشکروں میں حضرت حسنؓ نے بھی حصہ لیااورکئی معرکوں میں شریک ہوئے۔
حضرت علیؓ کے دورمیں حضرت حسنؓ وحسینؓ اپنے والدکے پاس قیام پذیررہتے تھے،اوران کے فرمودات کے تحت ان کے معمولات جاری رہتے تھے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعدآپ کے ہاتھ پرہزاروں افرادنے بیعت خلافت کی،آپ چارماہ یاآٹھ ماہ تک خلیفہ رہے،تاہم پھرآپ مسلمانوں میں اتحادویگانگت کی خاطرخلافت سے دستبردارہوئے اورچندشرائط کے ساتھ حضرت معاویہ ؓسے صلح فرمائی،یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ میرے اس بیٹے کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دوگروہ میں صلح فرمائیں گے۔
خلافت سے دستبرداری کے بعدمدینہ منوہ تشریف لائے اوروہیں قیام پذیرہوئے آپ نے کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیااورنہایت خاموشی سے اپنے ناناکے جوارمیں زندگی گزاری بیشتروقت عبادت الٰہی میں گزرتاتھا۔
سیدناحسنؓ جس خانوادے میں پلے بڑھے وہ علم وفضل کاسرچشمہ تھاحضرت حسنؓ عہدنبویؐ میں کم سن تھے تاہم روایت حدیث سے ان کادامن خالی نہیں رہاان سے تقریبًاتیرہ احادیث مروی ہیں،مدینہ منورہ کے بڑے فقہاء میں ان کاشمارہوتاتھا۔خطابت،شعروشاعری دیگرمروجہ علوم میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے۔
بہت کم گفتگوفرماتے اوراکثرخاموش رہتے لیکن جب کلام فرماتے توکوئی ان کے سامنے لب نہیں ہلاسکتاتھالڑائی جھگڑے کے معاملات میں نہیں پڑتے تھے جب ان سے رجوع کیاجاتاتودلائل سے بات سمجھادیتے۔بردباری،سکینہ ووقار،جاہ وحشمت اورسخاوت آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں۔
آپؓ نے اپنی زندگی میں کئی نکاح فرمائے آپ کی اولادشریف میں تقریبًاآٹھ صاحبزادے اورپانچ صاحبزادیوں کاذکرآتاہے۔
آپ کاانتقال بہ اختلا ف روایت ربیع الاول کے ابتدائی ایام یاماہ صفرکے اخیرمیں 49ہجری یا50ہجری میں ہوا،اس وقت آپ کی عمرمبارک47یا48بر س کی تھی۔
آپ کی وفات سے متعلق اکثرارباب سیرنے لکھاہے کہ آنجنابؓ کی ازواج میں سے ایک زوجہ مسماۃ جعدۃ تھی اس نے ناعاقبت اندیشی کی بناء پرآپ کوزہرپلادی تھی جس کی وجہ سے آپ سخت بیمارہوگئے اورچالیس دن کے قریب علیل رہ کراس دارفانی سے کوچ فرماگئے۔
آپ کی رحلت کی خبر پھیلی تومدینہ کے بازاربنداورہرطرف کہرام برپاہوگیا،جنازہ میں اس قدرہجوم تھاکہ اس سے پہلے مدینہ میں بہت کم دیکھنے میں آیاتھا،ایک روایت کے مطابق لوگوں کی کثرت اس قدرتھی کہ اگرسوئی بھی پھینکی جاتی توزمین پرنہ گرتی۔
حضرت حسنؓ کی نمازجنازہ حضرت حسینؓ کے ارشادکے مطابق اس وقت کے امیرمدینہ حضرت عمروبن العاص الامویؓ نے پڑھائی،اورآپ جنت البقیع میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے پہلومیں مدفون ہوئے ۔رضی اللہ عنہم اجمعین