شیخ الحدیث حضرت مولانا سید غلام نبی شاہ صاحبرحمۃ اللہ علیہ

-->

مؤرخہ۳؍جولائی ۲۰۲۱ء مطابق ۲۲؍ ذالقعدہ ۱۴۴۲ھ کو ملک کے نامور عالم دین، ہزاروں علماء و مشائخ کے استاذ و مربی، جمعیت علمائے اسلام مانسہرہ کے سرپرستِ اعلیٰ، جامعہ عربیہ سراج العلوم جبوڑی وجامعہ سید احمد شہیدؒ ٹھاکرہ مانسہرہ کے بانی و مہتمم،یادگارِ اسلاف، معتمدِاکابر،شیخ الحدیث حضرت مولانا سید غلام نبی شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ اس فانی دنیاسے رحلت فرماگئے۔

حضرت شاہ صاحبؒ خاندانِ سادات سے تعلق رکھتے تھے، ۱۹۳۶ء میں بٹل کے قریب ایک گاؤں ’’کھن‘‘ میں آپ کی ولادت ہوئی، مختلف اداروں میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ۱۹۶۳ء دورہ حدیث جامعہ صدیقیہ گوجرانوالہ سے کیا۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا رسول خان ہزاروی، مولاناقاضی شمس الدین، مولانا قاضی عصمت اللہ، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، مولانا سرفراز خان صفدررحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں۔ آپ کے استاذ مولانا رسول خان ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ  اور مولانا قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند میں بھی مدرس رہے ہیں۔ آخر الذکر کو علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہمااللہ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ حضرت قاضی صاحب ؒ سے ہمارے بہت سارے اکابرین نے کسبِ فیض فرمایاہے۔حضرت شاہ صاحبؒ نے کتبِ احادیث حضرت قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ  سے اور قرآن کریم کی تفسیرمولانا غلام اللہ خان  رحمۃ اللہ علیہ  سے پڑھی۔ فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد حضرت شاہ صاحب ؒ نے کسی شہریا معروف مقام میں امامت وخطابت یا تدریس کی بجائے اپنی محنتوں کا محور ایک ایسے دیہاتی علاقے کو بنایا، جو ہر اعتبار سے انتہائی پسماندہ تھا، علاقائی رسوم و رواج کا وہاں غلبہ تھا، مزاجاً لوگوں میں سختی پائی جاتی تھی۔ یہ پہاڑی علاقہ جبوڑی تھا، جو مانسہرہ شہر سے تقریبا ًچالیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہاں پہاڑوں کے بیچوں بیچ آپ نے ۱۹۶۴ء میں ایک ادارے کی بنیاد رکھی، دینی تعلیم اور نمازوں کے بعد درسِ قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ آپ کی محنت نے اس علاقے ہی کا نہیں، بلکہ ہزارہ ڈویژن کا رُخ  بدل دیا، لوگوں کو رسوم و رواج کی پابندی کی بجائے دین اور سنتوں کا پابند بنادیا، دینی شعور بیدار کیا،دینی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کیا، اور جلد ہی اس فردِواحد کی محنت نے اس ادارے کو ’’جامعہ عربیہ سراج العلوم‘‘ کے نام سے علمی دنیا میں متعارف کروادیا۔ ابتدائی درجات سے اس ادارے کا آغازہوا اور دورۂ حدیث تک جا پہنچا۔ یہاں ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں، اور ایک نہایت ہی پسماندہ بستی میں علمی دنیا آباد ہوگئی۔یہاں آپ نے ایک وسیع لائبریری بھی قائم کی، جس میں تفسیر،حدیث، فقہ سمیت دیگر موضوعات کی ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ بڑی محنت سے آپ نے جمع فرمایا۔یہ لائبریری آج بھی موجود ہے۔شہر سے دور اس پہاڑی علاقے میں حضرت شاہ صاحب ؒ کی اس محنت کو سراہتے ہوئے بہت سے علماء ومشائخ، اکابرین اُمت کی تشریف آوری شروع ہوئی،جن میں حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، مولانا غلام غوث ہزاروی، مفکرِ اسلام مولانا مفتی محمود،خواجۂ خواجگان خواجہ خان محمد، مولانا سرفراز خان صفدر، مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مفتی نظام الدین شامزی شہید رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں۔ آپ کا یہ ادارہ ہزارہ ڈویژن میں دینی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نمایاں اور ممتاز مقام رکھتا ہے، ساتھ ساتھ یہ ادارہ لوگوں کے مسائل و تنازعات کے حل کے لیے بھی بنیادی مرکز ہے۔ ہم بچپن سے سنتے اور دیکھتے چلے آئے ہیں کہ دور دراز کے علاقوں میں اگر کہیں کوئی تنازع کھڑا ہوتا تو شرعی حل اور تصفیہ کے لیے لوگ میلوں سفر کرکے جامعہ عربیہ سراج العلوم جبوڑی حاضر ہوتے اور اپنے معاملات شریعت کے مطابق حل کرواتے۔

 ۱۹۶۴ء کے بعد اُٹھنے والی دینی تحریکات میں اس ادارے اور حضرت شاہ صاحب ؒ کابنیادی کردار رہا ہے، ان تحریکات میں ہزارہ کی سطح پر مرکزی کردار اداکرنے کی پاداش میں حضرت شاہ صاحبؒ چند ماہ ہری پور جیل میں اپنے اکابر کے ساتھ قید بھی رہے۔ ہزارہ میں بہت سے فتنوں کی راہ بھی آپ نے مسدود کی، قادیانیت نے اس علاقے میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے اور ’’ڈاڈر‘‘ کے مقام پر ان کا اثر ورسوخ بڑھنے لگا تو ان کے قلع قمع کے لیے حضرت شاہ صاحب ؒ بذات خود اپنے ادارے کے افراد، طلبہ سمیت بسیں بھر کر وہاں پہنچ گئے اور ان کا ایسا صفایا کیا کہ یہ فتنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں سے ختم ہوگیا،وہاں کے مسلمان ان کے شکار بننے سے محفوظ رہے،اور الحمدللہ آج تک اس خطے میں ان کا نام ونشان موجود نہیں۔ اس واقعہ کی دلچسپ روئیداد گزشتہ سال ایک ملاقات میں حضرت شاہ صاحبؒ کی زبانی ہمیں سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔

اسی طرح ایک اور فتنے کی سرکوبی کی تفصیل میں حضرت شاہ صاحبؒ نے ایک عجیب واقعہ یہ بھی سنایا کہ اس فتنے کی روک تھام کے لیے بطوربرکت کے میں محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کی جانب سے تحفۃًدی گئی چادر کو اپنے کندھے پر ڈال کر نکلا تھا اور اس تحفے کا پس منظر یہ تھا کہ مانسہرہ میں ایک جلسے میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  مدعو تھے، اور ان کا آخری خطاب تھا، حضرت شاہ صاحبؒ بھی جلسے کے مقررین میں شامل تھے، حضرت شاہ صاحبؒ کا بیان جاری تھا کہ اتنے میں حضرت بنوریؒ تشریف لائے، اور کچھ دیر حضرت بنوریؒ نے حضرت شاہ صاحبؒ کا بیان سنا، بعد ازاں بطور انعام کے حضرت بنوریؒ نے اپنی چادر اُتارکر حضرت شاہ صاحبؒ کو دے دی۔ حضرت بنوری ؒ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کا ذکر جب بھی فرماتے تو آبدیدہ ہوجاتے۔ حضرت بنوریؒ کی اس نشانی کو ہمیشہ حضرت شاہ صاحب ؒنے سنبھال کررکھا، اور فرماتے تھے کہ مشکل اوقات میں‘ میں یہ چادر اپنے کندھے پر ڈال کر نکلتا ہوں، اللہ تعالیٰ کامیابی نصیب فرمادیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی اعتبار سے اونچا مقام عطا فرمایا تھا، علوم و فنون میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اورآخری وقت تک آپ کا حافظہ کمال کا تھا۔ آپ کی مجلس‘ علمی وروحانی خانقاہ کا منظر پیش کرتی تھی۔ پیرانہ سالی کے باوجود فنون کا استحضار تھا۔ ہمیں جب بھی آپ سے ملاقات کا شرف ملا،آپ کی علمی گفتگو سننے کا موقع میسر آتارہا، جس کی کچھ تفصیل بندہ نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان:’’ساعتے باولی کامل‘‘ شائع شدہ ماہنامہ بینات بابت ماہ ذوالقعدۃ ۱۴۳۸ھ میں بھی لکھی ہے۔

حضرت شاہ صاحب ؒنے ساری زندگی دین کی خدمت میں گزاری، اس راہ میں آپ نے بڑی مشقتیں اور پریشانیاں بھی اُٹھائیں،مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن عزم و ہمت پر کاربند رہے۔طلبہ کرام سے آپ کی محبت دیدنی تھی، اور طلبہ بھی آپ پر جان نچھاور کرتے تھے۔عوامی حلقوں میں آپ ’’شاہ صاحب‘‘ اور طلبہ کے ہاں ’’باباجی‘‘کے لقب سے مشہور تھے۔آپ کے صاحبزادے مولانا شاہ عبدالقادرمدظلہ کا بیان ہے کہ جامعہ عربیہ سراج العلوم میں ایک طویل زمانے تک باورچی خانے کا نظام نہیں تھا، ہماری والدہ (حضرت شاہ صاحب کی اہلیہ مرحومہ)تمام طلبہ کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے صبح و شام روٹیاں بنایا کرتی تھیں۔ اس طرح محنت واستقامت سے آپ نے اس ادارے کو پروان چڑھایا۔

اکتوبر ۲۰۰۵ء کے  زلزلہ میں آپ کے اس ادارے کو شدید نقصان پہنچا، جس کے بعد آپ نے مانسہرہ شہر کے قریب ٹھاکرہ میں اپنے ادارے کی ایک شاخ ’’جامعہ سید احمد شہیدؒ    ‘‘کو اپنا علمی مرکز بنایا اور طلبہ سمیت وہاں منتقل ہوئے، اور ساتھ ساتھ اس کے قریب معمولی فاصلے پر چنارروڈ مانسہرہ میں ایک اور عظیم الشان خوبصورت مسجد اور مدرسہ کی داغ بیل ڈالی، اور اس کا نام اپنے قدیم اور محبوب ادارے جامعہ عربیہ سراج العلوم جبوڑی کے نام پر ’’جامعہ عربیہ سراج العلوم‘‘ رکھا۔

چند سالوں سے آپ کی رہائش بھی اسی تیسرے ادارے میں تھی، یہاں منتقل ہوجانے کے باوجود آپ کے دل میں آپ کے قدیم ادارے کی محبت اتنی رچی بسی تھی کہ ہر جمعہ بڑے اہتمام سے نمازِ جمعہ کی امامت و خطابت کے لیے مانسہرہ سے جبوڑی تشریف لے جاتے اور وہاں جامعہ عربیہ سراج العلوم میں خود جمعہ کا بیان بھی فرماتے،خطبہ دیتے اور امامت فرماتے۔ آپ کی اقتداء میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کےلیے دور دراز کے علاقوں اور دیہاتوں سے افراد کھنچے چلے آتے تھے، بیان کے آغاز سے قبل ہی مسجد کا احاطہ تقریباً بھرجاتا تھا۔ انتہائی کمزوری کے باوجود خطبہ عصاکے سہارے کھڑے ہوکر ارشاد فرماتے، اور نماز بھی کھڑے ہوکرپڑھاتے ۔چند سال قبل ہمیں وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع ملا، نماز کے بعد شاہ صاحبؒ سے ملاقات ہوئی،اس موقع پر ایک صاحب آئے، سلام کیا اور کہنے لگے کہ حیدرآباد سندھ سے آپ سے ملاقات اور دعا کے لیے حاضر ہوا ہوں،مجھ سے قبل میرے والد آپ کی خدمت میں آیا کرتے تھے، ان کا انتقال ہوچکا ہے، اب میں حاضر ہوا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے مقبول بندوں کے ساتھ خاص معاملہ ہوتاہے کہ ان کی محبوبیت لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیتے ہیں، پھر یہ اولیاء اللہ گوشۂ گمنامی میں ہوں، دیہات میں ہوں، کسی پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کررہے ہوں، لوگ دیوانہ وار اُن کے قدموں میں حاضری کو سعادت سمجھتےہیں۔

علاقائی ماحول اور لوگوں کی نفسیات سے بھی آپ خوب آگاہ تھے، اور جمعہ کے بیان میں بطور خاص ان باتوں کو بیان فرماتے جو معاشرتی اصلاح پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ عموماً دیہاتوں میں عورتوں کو وراثت میں حصہ دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا، حضرت شاہ صاحبؒ اس موضوع پر کھل کر اظہار فرماتے، اور لوگوں کو اس ناانصافی اور ظلم سے آگاہ کرتے، عورتوں کو وراثتی حصہ دینے کا حکم فرماتے۔ دیہاتی ماحول کی سختی کی وجہ سے باہمی ناچاقیاں معاشرے میں پھیلی ہوتی ہیں، یہ بھی آپ کے بیانات کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا، صلہ رحمی کی خوب تاکید فرماتے، اس سلسلہ کی احادیث بیان فرماتے، اور سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے منقول یہ روایت :’’ اِرْحَمُوْا مَنْ فِي الْأرْضِ يَرْحَمْکُمَ مَّنْ فِي السَّمَاءِ‘‘ بڑی کثرت سے  ذکر کرتے اور یوں ترجمہ کرتے کہ : ’’لوگو!زمین والوں پر،اللہ کی مخلوق پر، رحم کرو، عرش والا (اور اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی جانب اُٹھاتے) تم پر رحم کرے گا۔‘‘ اس موقع پر آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی ذکر کرتے،اور بیان کے آخر میں بڑے ترنم کے ساتھ الطاف حسین حالی  ؒ کا مشہورِ زمانہ مندرجہ ذیل نعتیہ کلام پڑھتے تھے:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی برلا نے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولا

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

عقیدۂ ختم نبوت بھی اپنے بیانات اور جلسوں میں اہتمام سے بیان فرماتے، اور جذب میں آکر خود ہی ’’ختمِ نبوت زندہ باد‘‘کا نعرہ لگواتے، اور یہ شعر مخصوص انداز میں دُہراتے:

حق پہ ثابت قدم رہ، باطل کا شیدائی نہ بن

اگر تجھے ایمان پیارا ہے تومرزائی نہ بن

بچیوں کی پیدائش اور ان کی تربیت اور ان پر خرچ بھی آپ کی تقریر کا جزء تھا، لوگوں کو سمجھاتے کہ بیٹیاں رحمت ہواکرتی ہیں، انہیں بوجھ مت سمجھا کرو، ایک ملاقات میں بندہ سے سوال کیا کہ اولاد ہے؟ بندہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! الحمدللہ، فرمانے لگے کہ بیٹی ہے یا بیٹا؟میں نے بتایا کہ پہلی اولاد الحمدللہ بیٹی ہے، اس پر بڑے خوش ہوئے، اور فرمانے لگے: جس کے ہاں پہلی اولاد بیٹی کی صورت میں ہو وہ انسان بھی سعادت مند اور وہ گھر اللہ کی رحمت کا مستحق ہوتاہے، پھر فرمایا کہ دیکھیں! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۭ يَھَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ اِنَاثًا وَّيَھَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ الذُّکُوْرَ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ہے سلطنتِ آسمان اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی دَین میں بیٹی کا ذکر مقدم فرمایا ہے، اور بیٹے کا ذکر مؤخر فرمایا ہے،بیٹی کا ذکر میں مقدم ہونا اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔یہی ارشاد تفسیر قرطبی میں علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرمایا ہے، جس کی عبارت یہ ہے :

’’ وقال واثلۃ بن الأسقع: إن من يمن المرأۃ تبکيرہا بالأنثی قبل الذکر، وذلک أن اللہ تعالٰی قال:’’ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ إِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ الذُّکُوْرَ‘‘ فبدأ بالإناث.‘‘

 ( تفسير القرطبی، ج:۱۶، ص:۴۸، ط:دارالکتب المصریۃ، قاہرہ)

حضرت شاہ صاحبؒ اپنے اکابر واسلاف کی فکر پر سختی سے کاربند رہے، اکابر کے منہج سے کسی بھی طرح کا انحراف اُنہیں گوارا نہیں تھا، کسی بھی معاملے میں غیرضروری سختی اور تشدد کے روادار نہیں تھے، ان کے دروازے ہرخاص و عام کے لیے کھلے رہتے تھے، جس طرح ہمارے استاذ مکرم،شیخ المشائخ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر  رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضری کو علماء،صلحاء،اورعوام اپنی لیے سعادت سمجھتی تھی، اسی طرح حضرت شاہ صاحبؒ کے ہاں حاضری کو اپنے اور پرائے،مذہبی وسیاسی قیادت، علماء وصلحاء، دینی جماعتوں کے قائدین و عہدیداران سبھی اپنی سعادت سمجھتے تھے، اور شاہ صاحب ؒ کی محبتیں اور شفقتیں سمیٹنے اور اُن کی دعائیں حاصل کرنے کے لیے ان کے آستانے پر حاضر ہواکرتے تھے۔

آپ نے ’’ملفوظاتِ اکابر‘‘کے نام سے ایک گلدستہ تیار کیا،جس میں اکابرینِ اُمت کے ملفوظات جمع فرمائے،آنے والے مہمانوں کو بڑے اہتمام سے یہ گلدستہ پیش فرماتے تھے، نیز ’’قرآن کریم پر طائرانہ نگاہ‘‘ کے نام سے سورۂ فاتحہ سے سورۂ اعراف تک قرآنی سورتوں کے مضامین کا مختصر بیان بھی مرتب فرمایا۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری سمیت دیگر کتب پر بھی انہوں نے علمی کام کیا، لیکن تاحال یہ مسودہ کی صورت میں ہے، اللہ کرے کہ ان کا یہ علمی کام طبع ہوکر دنیا کے سامنے آسکے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیک صالح اولاد سے نوازا، آپ کی پہلی اہلیہ مرحومہ سے آپ کے دو صاحبزادے ہیں،ایک مولانا شاہ عبدالقادر، اور دوسرے مولانا شاہ عبدالعزیز، دونوں صاحبزادے جامعہ اشرفیہ لاہور سے فارغ التحصیل ہیں۔ ثانی الذکر معروف خطیب تھے، اندرون وبیرون ملک بڑے اہتمام سے انہیں دینی اجتماعات میں مدعو کیاجاتا تھا،۱۴؍اپریل ۲۰۲۰ء کو ان کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال سے حضرت شاہ صاحبؒ بہت مغموم ورنجیدہ تھے، ہم جب مولانا عبدالعزیزؒ کے انتقال کے بعد تعزیت کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت شاہ صاحب ؒکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں جاری ہوگیا، بہت دیر بعد معمولی گفتگو کی اور فرمایا کہ :میرا سرمایہ مجھ سےجدا ہوگیا۔بلاشبہ نیک صالح اولاد انسان کے لیے دنیا وآخرت کا حقیقی سرمایہ ہے۔ دوسرے صاحبزادے مولانا شاہ عبدالقادرمدظلہ آپ کے اداروں کے منتظم ہیں۔ پہلی اہلیہ سے دو بیٹیاں آپ کے پسماندگان میں شامل ہیں، دوسری اہلیہ سے بھی آپ نے ایک صاحبزادہ اور تین صاحبزادیاں لواحقین میں چھوڑی ہیں۔

اسلاف کا صحبت یافتہ، اسلام کا سچا داعی و سپاہی،محنتوں و مشقتوں کا خوگر، محبتوں اور شفقتوں کا پیکر،ختمِ نبوت کا یہ سچا عاشق،علم وعمل کا یہ آفتاب و ماہتاب بروز ہفتہ ۳؍جولائی ۲۰۲۱ء مطابق ۲۲ذوالقعدہ۱۴۴۲ھ کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا۔اگلے روز ٹھاکرہ اسٹیڈیم مانسہرہ میں آپ کےجنازے کی نماز ادا کی گئی، جس میں خلقِ خدا اُمڈ آئی۔ وفاق المدارس کی صوبائی قیادت سمیت، سیاسی ومذہبی راہنما، اور عوام کے جم غفیر نے آپ کے جنازے کی نماز پڑھی،اور چنار روڈ پر واقع آپ کے ادارے میں قبرستان کے لیے مختص جگہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحب ؒ کی دینی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ان کے قائم کردہ دینی اداروں کو ترقیات سے نوازے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے،آمین ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں